Nazam
Poetry that wispers secrets to the soul. “Symphonies of love, carfted with words.”
Nazams
پہلے
آدمی بھول چکا تھا وہ ازل کی تقریب
تھے کسے یاد بھلا وعدہّ و پیمال پہلے
بعد کی بات ہے ویرانی بازارِ حیات
نسیہ و نقد ہوئے لقمہ نسیاں پہلے
ہے بہت زود فراموش ضمیرِ انساں
قرض ہی قرض تھے معبود کے احساں پہلے
سخت ویران تھا بن اُس کے شبستان وجود
تھی بہت نوعِ بشر ، بے سر و ساماں پہلے
تب کہیں جا کے ہوا ایک تجلی کا طلوع
ہفت افلاک ہوئے چاک گریباں پہلے
نقش سینوں پہ ہوا فیض نبیؐ سے ورنہ
لوحِ محفوظ پہ منقوش تھا قرآن پہلے
ساعتِ تحریرنعت
اک سمندر کی طرح سے گونجتا رہتا ہوں میں
اک ہوائے جستجو میں جھومتا رہتا ہوں میں
سوچتاہوں، سوچتا ہوں، سوچتا رہتا ہوں میں
پھر بھی یہ جرأت کہاں ہے روز کب لکھتا ہوں میں
حکم ہوتا ہے اُدھر سے نعت جب لکھتا ہوںمیں
آدمی بولے تو کیسے لہجۂ قرآن میں
چاہتا ہوں جو نہیں ہے لفظ کے امکان میں
نیند میں ہوتی ہے دنیا اور ان کے دھیان میں
روشنی مثلِِ چراغِ نیم شب لکھتا ہوں میں
نعت جب لکھتا ہوں میں
وہ امیں ہیں وہ اماں ہیں وہ مکیں ہیں وہ مکاں
وہ ازل ہیں وہ ابد ہیں وہ زمیں ہیں وہ زماں
وہ نہیں ہیں گر جوازِ خلقتِ ہر دو جہاں
خلفتِ ہر دو جہاں کو بے سبب لکھتا ہوں میں
نعت جب لکھتا ہوں میں
وہ ضمیر صد تجلّی ، وہ تجلّی ضمیر
حمد
لکھی ہے حمد کہ الحمد، میرا رب تو ہے
کہ میرے دل کی صدا، میرا نطقِ لب تو ہے
ترا جمال ہے کل کائنات کو گھیرے
یہ مہرو ماہ ، حجاباتِ نور ہیں تیرے
مجھے خبر ہے تجلی روز و شب تو ہے
کبھی مہکتے ہوئے برگ و گل کی خوشبو ہے
کبھی برستے ہوئے بادلوں کا جادو ہے
کبھی بھڑکتی ہوئی آگ کا غضب تو ہے
صدا نہیں ہے مگر تو سنائی دیتا ہے
تو صرف اندھے یقیں کو دکھائی دیتا ہے
جسے نگاہ نہ دیکھے وہ بو العجب تو ہے
تری تلاش میں، روحِ شہود میں گم ہوں
قدم قدم پہ رکوع و سجود میں گم ہوں
نفس نفس کی صدائے ادب ادب تو ہے
دل حزیں کے لیے مہربانِ آخر ہے
کہیں اماں نہ ملے تو امانِ آخر ہے
خون تازہ
موسم سرما کی رات
جس کے سردی میں رچے برفیلے ہاتھ
جب بھی چھوتے ہیں مجھے
کپکپا اٹھتا ہوں میں
میں عجب برزخ میں ہوں
اپنی بیوی کا شناسا جسم بھی
اب مجھے سیراب کر سکتا نہیں
میرے اندر خواہشوں کا ایک پیاسا بھیڑیا
آج بے کل ہے بہت
خون تازہ کے لیے
ہر رات کا خواب
میں ہمیشہ کی طرح تنہائی کی باہوں میں باہیں ڈال کر
رات بھی ساحل پہ تھا محو خرام
رات بھی اپنے ہی سائے کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر
میں خود اپنے آپ سے تھا ہم کلام
دم بدم دامن کشاں تھا رات بھی گہرے سمندر کا فسوں
کھنچ رہی تھیں رات کی نیلی رگیں
رات بھی جب بڑھ رہا تھا تیز وحشت خیز موجوں کا جنوں
میرا سایہ کہہ رہا تھا آ چلیں
ناگہاں ٹوٹا دھوئیں کا آبشار
دیکھتے ہی دیکھتے بجلی گری اک زور کا کوندا ہوا
میں بھنور جیسے سفینے پر سوار
بادباں جس کی ہوائیں بجلیاں مستول طوفاں ناخدا
تک رہا تھا ہر طرف دیوانہ وار
رات بھی میں خوف کی شدت میں اپنے سائے سے لپٹا ہوا
رات بھی پلکوں پہ روشن تھا لہو
رات بھی جاری و ساری تھا رگوں میں بجلیوں کا ارتعاش
رات بھی حیراں تھی چشم جستجو
رات بھی دیکھی ہے میں نے اپنے اک ہم شکل کی موجوں میں لاش
اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دور
رات بھی میں بزدلی سے بھاگ آیا اس کو تنہا چھوڑ کر
بار شب سے آج بھی شانے ہیں چور
آج بھی اٹھا ہوں جیسے روح کا تاریک گھیرا توڑ کر
پاگل عورت
ایک بھٹکتی روح اپنے مرقد سے دور
وہ فٹ پاتھ پہ اور کبھی شہراہوں پر
کیا جانے کس دھن میں تنہا پھرتی ہے
شب کو آخر بار مسافت سے تھک کر
کیا جانے کس گوشے میں جا گرتی ہے
کوئی شریعت جس سے نہیں لے سکتی حساب
جس کا دل نیکی سے خالی ہے
جانے کس سگ زادہ خباثت کے ہاتھوں
اب وہ بچے کی ماں بننے والی ہے!