Responsive Menu
Add more content here...

Ghazal

Poetry that wispers secrets to the soul. “Symphonies of love, carfted with words.”

Ghazals

تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا

تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا
چپ رہنے کی عادت نے کچھ اور ہمیں بد نام کیا
فرزانوں کی تنگ دلی فرزانوں تک محدود رہی
دیوانوں نے فرزانوں تک رسم جنوں کو عام کیا
کنج چمن میں آس لگائے چپ بیٹھے ہیں جس دن سے
ہم نے صبا کے ہاتھ روانہ ان کو اک پیغام کیا
ہم نے بتاؤ کس تپتے سورج کی دھوپ سے مانی ہار
ہم نے کس دیوار چمن کے سائے میں آرام کیا
صہباؔ کون شکاری تھے تم وحشت کیش غزالوں کے
متوالی آنکھوں کو تم نے آخر کیسا رام کیا

چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں

چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں
مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں
چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں
صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتھر بن جاؤ
دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

مجھے ملا وہ بہاروں کی سر خوشی کے ساتھ

مجھے ملا وہ بہاروں کی سر خوشی کے ساتھ
گل و سمن سے زیادہ شگفتگی کے ساتھ
وہ رات چشمۂ ظلمات پر گزاری تھی
وہ جب طلوع ہوا مجھ پہ روشنی کے ساتھ
اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ
یہ اتفاق ہیں سب راہ کی مسافت کے
چلے کسی کے لیے جا ملے کسی کے ساتھ
برا نہیں ہے مگر حسب تشنگی بھی کہاں
سلوک شہد لباں میری تشنگی کے ساتھ
فضا میں رقص ہے صہباؔ حسیں پرندوں کا
مجھے بھی حسرت پرواز ہے کسی کے ساتھ

کل جہاں اک آئینہ ہے حسن کی تحریر کا

کل جہاں اک آئینہ ہے حسن کی تحریر کا
حال کس پتھر پہ لکھا ہے مری تقدیر کا
چاند اس کا آسماں اس کا سر شام وصال
جس پہ سایہ ہو تری زلف ستارہ گیر کا
کی نہ چشم شوق نے جنبش ہجوم رنگ میں
مجھ پہ طاری ہو گیا عالم تری تصویر کا
میں اسے سمجھوں نہ سمجھوں دل کو ہوتا ہے ضرور
لالہ و گل پر گماں اک اجنبی تحریر کا
چین سے دونوں نہیں اس عالم احساس میں
میں تری چپ کا ہوں زخمی تو مری تقریر کا

ملے ہیں پیار کے لمحے تو ان میں کھو جائیں

ملے ہیں پیار کے لمحے تو ان میں کھو جائیں
نصیب جاگ رہا ہے تو آؤ سو جائیں
سر بہشت غزل کوثر محبت میں
اٹھو کہ قرض ادا تشنگی کے ہو جائیں
یہ اشک اشک گہر رائیگاں نہ جائیں گے
جو ان کو شعر کی لڑیوں میں ہم پرو جائیں
بہار ہو کہ خزاں کارگاہ ہستی میں
انہیں کسی سے غرض کیا جو تیرے ہو جائیں
چمن نصیب زمانہ کرے گا یاد ہمیں
زمین شعر میں صہباؔ خیال بو جائیں

بہ ہر عالم برابر لکھ رہا ہوں

بہ ہر عالم برابر لکھ رہا ہوں
میں پیاسا ہوں سمندر لکھ رہا ہوں
صدف اندر صدف تھے جو معانی
انہیں گوہر بہ گوہر لکھ رہا ہوں
نہیں یہ شاعری ہرگز نہیں ہے
میں خود اپنا مقدر لکھ رہا ہوں
ہر اک طفل قلم یہ سوچتا ہے
میں کل دنیا سے بہتر لکھ رہا ہوں
نظر آتی نہیں جو دل کی دنیا
اسے منظر بہ منظر لکھ رہا ہوں
مے‌ لب سے مجھ خوش کرنے والو
تمہارے نام کوثر لکھ رہا ہوں
جو مستی ہے مرا مقسوم صہباؔ
اسے ساغر بہ ساغر لکھ رہا ہوں